صرف پاکستان کے مخصوص لڑکوں کے لیے مخصوص اردو کہانیاں
stories for boys in urdu pakistan, love friendship stories, not for molvies and islamic concept people, larka, dosti aur pyar, husun, mermaid, jal pari, boys with wings, urdu gay books, urdu gay stories
ROOHANI STORIES
b>PBL URDU STORIES - SHORT STORIES - مخصوص لڑکوں کے لیے مختصر مخصوص کہانیاں
PBL URDU STORIES - SHORT STORIES
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
جوان بچے اور لڑکے ۔ یکم جنوری 2025ء۔
king edward jololo the gay boy lover story from pakistan
ابراھیم اور کنگ ایڈورڈ جولولو
اسی گاؤں میں
کنگ ایڈورڈ جولولو نامی ایک
لڑکا رہتا تھا جو
ابراھیمکی طرحخوبصورت لڑکوں
کا ایک زبردست شکاری تھا۔
احمد بھی اسی گاؤں میں پلا بڑھا ہے۔
وہ کچھ سالوں سے گاؤں کے ان تمامخوبصورت لڑکوں پہ نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ گاؤں کے ان خوبصورت
لڑکوں میں سے کچھ لڑکوں کے درمیان جاری
سنگھش (تناؤ/لڑائی)خطرناک صورت
اختیار کرسکتا ہے۔ احمد کے علاوہ گاؤں کے کچھ اور لوگ بھی جانتے تھے کہ
جولولو کی وجہ سے خوبصورت لڑکوں کے درمیان اب سنگھش اور بڑھنے والا ہے۔
جولولو لڑکے کے شکار کی
شمتا (طاقت) سبھی خوبصورت بڑے
لڑکوں کے بیچ شنگھش کو جنم دینے والی ہے۔ ان کے درمیان تناؤ بڑھنے والا ہے
اور ان لڑکوں میں سے ایک تو جان سے ہاتھ بھی دھونے والا ہے۔
جولولو اور ابراھیم دونوں ہی گاؤں کےلڑکوں لڑکات
کو اکثر اوقات چھیڑتے رہتے تھے۔
وہ انہیں دیکھ کے کبھی سیٹیاں بجاتے
تو کبھی چلتے چلتے ان کے
ہاتھ پکڑ لیتے۔ ان کے ہاتھ پکڑ کے کہتے ”مجھ سے دوستی کرو گے؟“ کبھی کہتے ”اے!!! دوستی کرے گا؟“ کبھی کہتے ”پھر کب بلا رہے ہو مجھے اپنے گھراپنے پاس؟“۔۔۔ غرض طرح طرح کے ایسے لفظوں کی وجہ سے دبلے پتلے اور نازک کلائیوں والے چھوٹے بڑے خوبصورت لڑکے ان
سے بےحد پریشان تھے۔
وہ ان دونوں شکاری لڑکوں سے تنگ
آئے پڑے تھے اور اسی وجہ سے خوبصورت لڑکے بہت نروس ہوگئے تھے۔ ان کے منہ سے صرف ایک ہی حرف نکل پاتا تھا ”ہے!!!“۔۔۔ اور وہ گھبرا کر پسینہ پونچھتے ہوئے ہاتھ چھڑا کر ادھر ادھر ہوجاتے تھے۔
خاص طور پہ جولولو لڑکا تو گاؤں کے خوبصورت لڑکوں کے
حسن کو پہچانتا اور سمجھتا تھا۔ اس
میں یہ خوبی تھی کہ وہ مرادنہ حُسن
کو پہچان لیتا تھا۔ جولولو سے گاؤں کے سبھی خوبصورت چھوٹے بڑے لڑکے محفوظ نہ تھے اور ان کے
درمیان ایک زبردست سنگھش ہوتا
دکھائی دیتا تھا۔
ایک دن رات کے وقت جولولو کسی
گلی سے گزر رہا تھا تو اسے ایک
خوبصورت نوجوان لڑکا نظر آیا۔
جولولو لڑکے کی ملاقات محض اتفاقاً ایک گلی میں سے گزرتے ہوئے اس خوبصورت
لڑکے سے ہوئی۔
دونوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو پسند بھی کرلیا۔
گلی سے گزرتے اس لڑکے نے جولولو کو اپنی زندگی میں ایک حصے کی طرح مان
لیا۔ اس نے جولولو سے ہوٹل سے کھانا کھانے کی فرمائش بھی کردی۔
پھر وہ مین روڈ پہ واقع ایک ہوٹل میں کھانے کے لیے چلے گئے۔
دونوں کھانے بیٹھے۔ مگر جولولو
اپنے ہونے والے نئے دوست کے
ساتھ کھانے میں دریا دلی نہیں دکھا
رہا ہے۔ جولولو ایک دو لقمے لے کے ہی اٹھ کر چلتا بنا۔
جولولو یہ تو جانتا ہے کہ وہ ایک وقت میں کسی ایک لڑکے سے تو پیار
کرسکتا ہے۔ مگر ایک سے زیادہ لڑکوں سے محبت اس کو بہت بھاری پڑسکتی
ہے۔
ہوٹل سے نکل کر وہ مین روڈ پہ آیا۔ اس نے مین روڈ پہ آتے ہی گاؤں کے ایک لڑکے کا بیگ
چھینا اور جنگل کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ جولولو اس کا بیگ لے کر ایک
اونچے پیڑ پہ چڑھ گیا۔ اونچے پیڑ کے
پاس پہنچ کے گاؤں کے لڑکے نے حالات کا جائزہ
لیا۔ اس کے لیے یہ اونچائی بہت زیادہ تھی۔ اس نے دیکھا کہ پیڑ بہت اونچا ہے۔
وہ گاؤں سے ابراھیم نامی اپنے
ایک دوست کو ساتھ لے آیا۔
اب کی بار جب وہ گاؤں کا لڑکا واپس لوٹا تو اس کے ساتھ میں ایک اور لڑکا
بھی ساتھ تھا۔
گاؤں کا لڑکا امید لیے پیڑ کے
نیچے کھڑا تھا۔ اس کے دوست ابراھیم نے اونچے پیڑ پہ چڑھنے کی کوشش کی۔
مگر اس کی سمجھ میں جلد ہی آگیا کہ وہ اس پیڑ پہ نہیں چڑھ سکتا۔
چونکہ بیگ گاؤں کے لڑکے کا تھا، اسے بےچینی ہورہی تھی اسی لیے وہ اس اونچے
پیڑ پہ اکیلا ہی چڑھ گیا۔
ایسے لڑکے پیڑ پہ چڑھنے کے لیے نہیں بنے ہیں۔
مگر پھر بھی وہ اس اونچے پیڑ پہ چڑھ گیا۔
جولولو لڑکے نے گاؤں کے لڑکے کو آنکھیں دکھانی شروع کردیں۔ یوں دونوں بڑے
لڑکوں کا اونچے پیڑ پہ سنگھش شروع ہوگیا۔ بیگ کے مالک نے اپنا بیگ جولولو
لڑکے سے چھین لیا اور اس کے منہ پہ ایک چانٹا بھی مار دیا۔ چونکہ بیگ گاؤں
کے لڑکے کا ہی تھا اسی لیے اس کا پلڑا بھاری تھا۔ جولولو لڑکا اپنی ہی مچان
پہ ہار گیا۔
وقت ضائع کیے بغیر جولولو لڑکا فوراً ہی اپنی مچان کو چھوڑ کے پیڑ سے نیچے
کود کر اتر گیا اور
یُدھ شیتر (میدنِ جنگ) کو چھوڑ
کر جنگل کی گہرائی میں بھاگ کھڑا ہوا اور
کسی جھاڑی کی اوٹ میں چھپ کر حالات کا جائزہ لینے لگا۔
گاؤں کا لڑکا اونچے پیڑ پہ وہاں
اکیلا ہی رہ گیا۔ اس نے اونچے
پیڑ سے نیچے اترنا شروع کردیا۔
اس کو جولولو لڑکے کی اس مچان پہ بہت بھاری قیمت چکانی پڑی۔
جیسے ہی وہ پیڑ سے نیچے اترا اس کی کمر
ٹوٹ گئی۔ وہ درخت پہ لٹکا رہ گیا
اور اس کی موت ہوگئی۔ بیگ اس کے
ہاتھ سے نیچے جا گرا۔ اس کے اُس ساتھی لڑکے دوست اِبـــراھیم نے اس ساری
گھٹنا (واقعہ) کو اپنی آنکھوں
سے ہوتے ہوئے دیکھا۔ ابراھیم بہت تیزی کے ساتھ اس اونچے پیڑ پہ چڑھ گیا۔
حالانکہ اس نے پہلے ظاہر کیا تھا کہ وہ اس اونچے پیڑ پہ نہیں چڑھ سکتا۔ اس نے
گاؤں کے لڑکے کی لاش کو نیچے اتارا۔
ایسے تناؤ بھرے وقت میں اس قسم کے مناظر دیکھنا دل دہلا دینے کے مترادف
تھا۔
ساتھ میں ابراھیم کی
خودغرضی بھی کہ اس نے گاؤں کے
لڑکے کی مدد نہیں کی، حالانکہ وہ اونچے پیڑ پہ چڑھنا جانتا تھا۔ تھوڑی ہی دیر
میں گاؤں کے لڑکے کی ماں اور محلے دار وہاں روتے دھوتے آگئے اور لڑکے کی لاش
کو ساتھ لے گئے۔ لڑکے کا بیگ ابراھیم کو مل گیا۔ اس میں پیسے تھے۔
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
والدین کے لیے 5 فرائض
پیار امر ہے
ہمارے عزیز رشتےدار سندھ کے شہر کوٹری میں رہائش پذیر ہیں۔ وہاں
ہمارا ننھیال ہے۔ کوٹری شہر حیدرآباد کے مضافات میں ہے اور یہ ضلع
جامشورو ہے۔ یہاں جس گلی مین ہمارے نانا کا گھر ہے اسی گلی میں ایک
انہونہ واقعہ پیش آیا تھا۔
یہ 2003ء کی بات تھی۔ مجھے نانا گھر کے کاروبار کی نیت سے کچھ ماہ
رہنا تھا۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ مثال کے طور پہ ہمارے نانا کے گھر
کی گلی نمبر ایک ہے اور اس کے مخالف سمت گلی نمبر دو۔ گلی نمبر ایک
میں نانا کے گھر کے بالکل پاس اسی محلے میں ایک لڑکا رہتا تھا۔ یہ
سہوانی محلہ ہے۔ فرض کرلیں کہ اس کا نام اسلم تھا۔ گلی نمبر دو میں
جو لڑکا رہتا تھا اس کا احمد تھا۔ احمد کے ہمسائے میں ایک لڑکی
رہتی تھی۔ اس کے والدین اس کی شادی احمد سے کرنے والے تھے۔
گلی نمبر ایک کا لڑکا اسلم اپنے ساتھ والی گلی کے لڑکے احمد کو
آنے جانے کے دوران بغور دیکھا کرتا تھا۔ لیکن بات چیت نہیں تھی۔
ایک دن اسلم کو خبر ملی کہ احمد کی منگنی بس کچھ ہی دنوں میں طے
پانے والی ہے۔ اسی دن رات کے وقت اس کو کسی بیماری کا دورہ پڑ گیا۔
اس کے والدین اسے اٹھا کے ہسپتال لے گئے۔ ڈاکٹروں کے مطابق اس کو
ذہنی صدمہ پہنچا تھا۔ وہ ہوش میں نہیں تھا۔ کچھ دن زیر علاج رہنے
کے بعد وہ گھر واپس آگیا۔ پھر مذید 15 روز بعد اسلم کو اطلاع ملی
کہ احمد کی فلاں تاریخ کو منگنی طے پا گئی ہے۔
یہ خبر بھی پہنچتے ہی اس کو پھر پاگل پنے کا دورہ پڑ گیا۔ اس بار
وہ گھر میں ہی بےہوش ہوگیا اور اس کے منہ سے عجیب سا جھاگ آنے لگا۔
والدین ڈر گئے اور اسے اٹھا کے ہسپتال لے گئے۔ پانچ سات دن علاج
معالجے کے بعد وہ واپس گھر آگیا۔ اس کے والدین نے اس سے پوچھا بتاؤ
بیٹا کیا بات ہے۔ تم نے کس صدمے کو دل سے لگا لیا ہے۔ اس بار اسلم
سے صبر نہ ہوسکا۔ اس نے کھلّم کھلّا دو ٹوک الفاظ میں اپنی محبت کا
اظہار کردیا کہ وہ احمد کو چاہتا ہے اور اس کی شادی ہوتے نہیں
دیکھنا چاہتا۔ اسلم کے والد قریبی مسجد کے ایک امام تھے۔ جب انہوں
نے یہ الفاظ سنے تو والدین نے اپنا سر پیٹ لیا کہ بیٹے نے یہ کیسا
قدم اٹھا لیا۔ انہوں نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر پیار اندھا
ہوتا ہے۔ وہ نہ مانا۔ بلکہ اس نے خودکشی کی دھمکی بھی دے دی۔
والدین ڈر گئے۔ مگر ضبط کیے وقت گزارتے رہے۔
یہ بات احمد کے والدین تک کسی طرح پہنچ گئی۔ انہیں بہت اچھنبا ہوا
کہ اسلم ایسا بھی کرسکتا ہے اور دھمکی بھی دے سکتا ہے۔ احمد کے
والدین نے نوٹس نہ لیا۔ بلکہ اس کی منگنی کی تیاری جاری رکھی۔ احمد
کو بھی اس واقعہ کا پتا چل چکا تھا۔ مگر وہ بھی اس بارے میں بالکل
خاموش تھا۔ اس نے ایک لفظ بات نہ کی۔ اس کے والدین اس سے پوچھ گچھ
کرتے رہے۔ اگلوانے کی کوشش کرتے رہے کہ یہ معاملہ کیا ہے!۔ مگر وہ
نہ بولا۔ بس خاموشی سے دیواریں تکنے شروع ہوگیا۔ اس کے والدین لڑکی
والوں کو زبان دے چکے تھے شادی کے لیے۔ بہرحال ایک دن اس کی منگنی
کی تاریخ آگئی اور رسومات ادا کردی گئیں۔
اسلم کو منگنی والے روز پھر ایسا ہی ایک زبردست دورہ پڑا جو پچھلے
دوروں سے زیادہ سنگین تھا۔ اس کے والد امام صاحب بہت پریشان ہوئے
کہ بیٹے نے یہ کیسا روگ لگا لیا اپنے دل کو۔ جو ہزار بار سمجھانے
سے بھی نہیں جا رہا۔
احمد اور اسلم دونوں ہی چپ چپ رہنے لگے تھے۔ اس خاموشی کا کیا
مطلب ہوسکتا ہے!!! یہ سمجھنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اسی طرح دو
ماہ کے اندر اندر اس کی شادی کا دن بھی آگیا۔ شادی تھی رات کو۔۔۔
احمد کا گھر سجا ہوا تھا اور ساتھ ہی ہمسائے کی گلی میں اسلم کے
گھر غم تھا۔ شادی کی رات ہی اس نے زہر نما کوئی چیز کھا لی جس سے
اس کی حالت بگڑ گئی۔ وہ ہسپتال لے جایا گیا۔ ایک گھر میں زندگی اور
موت کی کشمکش جاری تھی تو دوسری طرف بالکل ساتھ والی گلی میں ہی
شادی کے شادیانے بج رہے تھے۔ اسلم جانبر نہ ہوسکا۔ ہسپتال والوں نے
اس کی بوڈی ایمبولنس میں ڈال کے گھر بھجوا دی۔ بوڈی گھر پہنچتے ہی
پورے محلے میں کہرام مچ گیا۔ گھر میں غم اور سوگ منایا جانے
لگا۔
شادی کے بعد احمد بھی چپ چپ سا رہنے لگا۔ چُپ تو اسے پہلے سے ہی
لگی تھی۔ ایک دن اس کی بیوی نے اس سے کراچی کلفٹن دیکھنے کی فرمائش
کردی۔ دونوں گاڑی پہ سپر ہائی وے سے کراچی کے لیے روانہ ہوئے۔ آدھے
راستے میں گاڑی کا ٹائر برسٹ ہوگیا اور گاڑی الٹ گئ۔ دونوں موقع پہ
ہی جانبحق ہوگئے۔۔۔
جی قارئین!!!
اس واقعہ کو ہم کیا نام دیں؟ یہ سچ مچ کا ایک واقعہ تھا جو میرے
نانا کے گھر میں رہتے ہوئے ہی پیش آیا تھا۔ مارچ 2003ء سے اگست
2003ء تک میں کاروبار کے سلسلے میں وہیں رہا تھا۔ شادی ہوئی تھی
جون کے مہینے میں اور حادثہ ہوا تھا اگست کے دوسرے ہفتے میں۔ صرف
پانچ ماہ کے اندر اندر دونوں گھروں میں رہنے والوں کی زندگی بدل
گئی۔
1۔ آپ اس سچے واقعہ کے متعلق کیا رائے قائم کرتے ہیں؟
2۔ یہ سب کیا تھا؟؟؟
3۔ کیا پیار امر ہوتا ہے؟
4۔ کیا پیار مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے یا صرف فلموں کی حد تک
ہی محدود رہتا ہے؟
* میری آنکھیں اس چشمدید واقعہ کی گواہ ہیں۔
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
~~~
HATHO ME MERE HATH THAMAO
~~~~~~~~~~~~~~~
~~~
muhabbat-ka-shehzada
~~~~~~~~~~~~~~~
~~~
SHADI AUR DOSTI
~~~~~~~~~~~~~~~
~~~
khubsurat aur sexy shakal larka - short love story in urdu
گندم کی کٹائی میں مصروف آج کل بازار کی طرف کم ہی چکر لگتا ہے۔ لیکن کل
گرم موسم میں قلفہ کھانے کا پلان بن گیا۔۔۔!!! اور سب سے چھوٹا ہونے کی
وجہ سے مجھے قلفہ پیک کروا کر لانے کے لیے بھیجا گیا۔۔۔!!! میں جو پہلے
ہی کان میں فرینڈ لگاۓ اردگرد کے ماحول سے بےخبر بس اپنا کام کر رہا تھا
ویسے ہی بائیک پر بیٹھا اور بازار کی طرف چل دیا۔۔۔!!!
میں بڑے سکون سے ہیڈفون پہ گانے سنتے ہوۓ آہستہ آہستہ بائیک چلاتے ہوۓ
اور موسم کی تپش کو انجواۓ کرتے ہوۓ جا رہا تھا۔۔۔!!! کہ پیچھے سے ایک
بائیک بجلی کی سی سپیڈ سے مجھے کراس کرتے ہوۓ نکلی گئ۔۔۔!!! پہلے تو میں
نے سوچا کہ اسے کراس کیا جاۓ مگر پھر میں نے کہا جانے دو۔۔۔!!! وہ پرپل
شرٹ اور بلیک جینز میں ملبوس وہ کوئ جوان سالہ خوبصورت سیکسی شکل کا حسین
لڑکا تھا۔۔۔!!! میں تب اس کی شکل تو نہیں دیکھ پایا مگر اس کی کٹنگ اور
ڈریسنگ سینس سے وہ بہت ڈیسینٹ لگ رہا تھا۔۔۔!!! خیر میں نے اسے اگنور کیا
اور اپنی مستی میں آگے بڑھ گیا۔۔۔!!! آئسکریم شاپ پر پہنچ کر میں نے سوچا
کہ جلدی سے قلفہ لیتا ہوں اور چلا جاتا ہوں مگر پھر سوچا کیوں نہ کچھ کھا
لیا جاۓ ویسے بھی دوپہر کے کھانے کا وقت ہو رہا تھا۔۔۔!!! پاس میں کھڑے
برگر والے سے میں نے برگر کا کہا اور خود آئسکریم شاپ کے اندر چلا
گیا۔۔۔!!! جیسے ہی اینٹر ہوا یہ دیکھ کر شاکڈ ہوگیا کہ وہ وہی خوبصورت
لڑکا شاپ کے اندر بیٹھا سٹرابیری فلیور کے مزے لے رہا تھا۔۔۔!!!
میں بالکل اس کے سامنے والی ٹیبل پر جا کر بیٹھ گیا اور اسے دیکھنے
لگا۔۔۔!!! اس کی عمر تقریباً 20 سال ہوگی۔ ہلکے بھورے بال، چھوٹی سے
نوکیلی ناک، گلابی ہونٹ، ہلکی پھلکی مونچھیں، چمکتا سفید رنگ اوپر سے
پرپل کلر اس کی خوبصورتی میں مزید چار چاند لگا رہا تھا۔۔۔!!! اس نے مجھے
نظریں چراتے دیکھا تو اشارے سے مجھے آئسکریم کے لیے انوائیٹ کیا مگر میں
نے منع کر دیا۔۔۔!!! پھر وہ بھی بار بار میری طرف دیکھنے لگا شاید اس
نظریے سے تو نہیں جس سے میں دیکھ رہا تھا وہی پیار والا نظریہ، مگر اس
ہلکی براؤن آنکھیں چوری چوری مجھے قاتلانہ انداز سے گھور رہی تھیں ۔۔۔!!!
تھوڑی دیر میں میرا برگر موصول ہوا میں نے اسے انوائیٹ کیا اس نے منع کر
دیا۔۔۔!!! پھر اس نے اپنا آئسکریم کا کپ اٹھایا اور میرے ٹیبل پر میرے
روبرو آکر بیٹھ گیا۔۔۔!!! اس کے اس اچانک رد عمل سے میں لڑکا ہونے کے
باوجود نروس ہو گیا کیونکہ وہ بہت خوبصورت اور سیکسی شکل تھا۔ مگر پھر
میں نے خود پر قابو پایا اور اسے پیار سے دیکھنے لگا۔ وہ بولا آپ کو کچھ
چاہیے۔۔۔؟؟؟ میں اس کے اس اچانک سوال پر puzzle ہو کر کہا نہیں میں نے
کیا لینا آپ سے۔۔۔؟؟؟ وہ پھر سے بولا,
"Do i look familiar"...???
میں نے کہا
"Not at all"...!!!
اس پر وہ پھر سے بولا,
" Then why are you staring at me...???"a
میں نے کہا,"
"You are looking so cute. And there is no rule to not to look
at cute things...!!!
اس پر وہ شرمایا اور بولا اچھی باتیں کرتے ہو کیا نام ہے تمہارا۔ میں نے
کہا سمیر ۔ پھر وہ بولا ٫
Oh okay, Samir , I'm Aryan. Nice to meet you.
پھر کافی دیر باتیں ہوتی رہی۔ اس کا چہرہ جتنا پیارا تھا باتیں بھی اتنی
ہی پیاری تھیں۔۔۔!!!جب ٹائم دیکھا تو باتیں کرتے ہوۓ 35 منٹ ہو چکے تھے۔
میں نے اسے نمبر کے لیے کہا تو اس نے کہا کہ اگر ہم کبھی پھر سے اچانک سے
ملے تو تب ہی دوں گا ورنہ اسے خوبصورت لمحہ سمجھ کر یاد رکھنا۔۔۔!!! پھر
اس نے بِل پے کیا اور چلا گیا۔ میں نے بھی قلفہ لے کر پیک کروایا بِل پے
کیا اور دل میں کافی سوال اور excitement لے کر واپس آگیا۔۔۔!!!!
وہ نہایت خوبصورت لڑکا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ باتوں سے سلجھا ہوا
بھی لگتا تھا۔ اس کے لہجے سے اس کی خوبصورت تربیت جھلک رہی تھی۔۔۔!!!
شاید وہ یہاں کا ہے ہی نہیں کہیں باہر سے آیا تھا۔۔۔!!! مگر جو بھی تھا
بہت خوبصورت پیارا حسین اور سیکسی شکل تھا۔ پھر سے یاد رکھنے لائق۔۔۔۔
میرے ساتھ یہ بہت ہی خوبصورت واقعہ پیش آیا۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment